Tuesday, September 24, 2024

دنیا کا سب سے بڑا قاتل پہاڑ

 نانگا پربت

کوہ پیماؤں کا خواب


نانگا پربت، جسے "قاتل پہاڑ" کا لقب دیا گیا ہے، دنیا کے سب سے خطرناک اور بلند ترین پہاڑوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ پہاڑ پاکستان کے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں واقع ہے اور اس کی اونچائی 8126 میٹر (26660 فٹ) ہے۔ نانگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، چیلنجنگ راستوں، اور بے رحم موسمی حالات کی وجہ سے کوہ پیماؤں کے لیے ایک پرکشش لیکن خطرناک مقام ہے۔


نانگا پربت کا مطلب "ننگا پہاڑ" ہے، جو اس کے برف سے ڈھکے ہونے کے باوجود بے پناہ بلندی اور دشواری کی علامت ہے۔ اس پہاڑ کو سر کرنا دنیا کے چند مشکل ترین کارناموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اسے "قاتل پہاڑ" کہا جاتا ہے۔ نانگا پربت کی تاریخ میں کئی مہمات ناکام ہوئیں، جن میں بہت سے کوہ پیما اپنی جان گنوا بیٹھے۔ پہلی کوشش 1895 میں الفریڈ ممرے کی سربراہی میں کی گئی، لیکن یہ مہم ناکام ہوئی اور ممرے سمیت ان کے ساتھی کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1953 تک، تقریباً 31 کوہ پیما نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش میں جاں بحق ہو چکے تھے، جس کے بعد اس پہاڑ کو "قاتل پہاڑ" کہا جانے لگا۔


1953 میں، آسٹریا کے ہرمن بول وہ پہلے کوہ پیما بنے جنہوں نے نانگا پربت کو کامیابی سے سر کیا۔ یہ مہم بھی انتہائی مشکل ثابت ہوئی، اور ہرمن بول کو چوٹی پر پہنچنے کے بعد تنہا واپس آنا پڑا، کیونکہ ان کے ساتھی کوہ پیما برفانی راستے میں پیچھے رہ گئے تھے۔ ہرمن بول کی اس تاریخی کامیابی نے نانگا پربت کو ایک چیلنجنگ لیکن فتح پانے کے قابل پہاڑ ثابت کیا، مگر اس کے خطرات کم نہ ہوئے۔


پاکستانی کوہ پیما میجر محمد اقبال وہ پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے 1989 میں نانگا پربت کو سر کیا۔ ان کی یہ کامیابی پاکستان کی کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس کامیابی کے بعد پاکستانی کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک نیا حوصلہ پیدا ہوا، اور مزید کوہ پیما نانگا پربت کو فتح کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔


علی سدپارہ، پاکستان کے سب سے معروف کوہ پیما، نانگا پربت کو سب سے زیادہ بار سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما ہیں۔ انہوں نے نانگا پربت کو چار بار کامیابی سے سر کیا، اور وہ دنیا کے چند کوہ پیماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے اس پہاڑ کو سردیوں میں بھی سر کیا ہے۔ 2016 میں، علی سدپارہ نے نانگا پربت کو سردیوں میں سر کرنے کا کارنامہ انجام دیا، جو ایک تاریخی کامیابی تھی۔ ان کی مہارت اور جرات نے انہیں دنیا بھر میں ایک منفرد مقام دیا۔


نانگا پربت کو سر کرنے کے لیے تین اہم راستے ہیں: راکیوٹ/کینچن روٹ، دیامیر فیس، اور روپال فیس۔ ہر ایک راستہ اپنی نوعیت میں منفرد اور خطرناک ہے۔


1. راکیوٹ/کینچن روٹ نانگا پربت کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور نسبتاً آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔ 1953 میں ہرمن بول نے اسی راستے سے پہاڑ کو پہلی بار سر کیا تھا۔



2. دیامیر فیس پہاڑ کی مغربی سمت میں واقع ہے اور یہ راستہ بھی کافی مشہور ہے۔ 1962 میں ایک جرمن-پاکستانی ٹیم نے اس راستے سے چوٹی کو سر کیا تھا۔



3. روپال فیس پہاڑ کی جنوبی سمت میں واقع ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا اور مشکل ترین پہاڑی چہرہ مانا جاتا ہے۔ 1970 میں مشہور کوہ پیما رین ہولڈ میسنر اور ان کے بھائی گونتر میسنر نے اس راستے سے چڑھائی کی تھی۔




روپال فیس کے ذریعے کی گئی مہم کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ رین ہولڈ میسنر اور ان کے بھائی گونتر میسنر چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب تو ہوئے، لیکن واپسی کے سفر میں گونتر میسنر کی طبیعت خراب ہو گئی۔ دونوں بھائیوں نے زیادہ محفوظ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، لیکن حالات انتہائی دشوار ہو چکے تھے۔ گونتر برفانی تودے کی زد میں آ کر لاپتہ ہو گئے اور ان کی موت واقع ہو گئی۔ گونتر کی لاش کئی سالوں تک نہیں ملی، اور یہ ایک بڑی معمہ بنی رہی۔ 2005 میں، ان کی باقیات نانگا پربت کے دیامیر فیس کے قریب پائی گئیں، جس نے ان کی موت کی تصدیق کی۔


رین ہولڈ میسنر نے اپنے بھائی کی موت کے بعد نانگا پربت کے حوالے سے کئی کتابیں لکھیں اور اس مہم کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ ان کا یہ واقعہ کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک اہم اور دلخراش مہمات میں شمار ہوتا ہے۔


نانگا پربت کو سر کرنا ہمیشہ سے کوہ پیماؤں کے لیے ایک خواب رہا ہے، مگر اس خواب کی تکمیل میں کئی جانیں قربان ہو چکی ہیں۔ یہ پہاڑ اپنی عظمت اور خطرات کے باعث ہمیشہ کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ آج بھی نانگا پربت کو سر کرنا دنیا کے مشکل ترین کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے، اور اس کی چوٹیاں کوہ پیماؤں کو اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں۔

  حافظ محمد زبیر یعقوب

Sunday, August 25, 2024

کچے کا علاقہ کیا ہے؟



پاکستان اورکچےکا علاقہ

ڈاکہ زنی میں بدنام ترین علاقہ

کچے کے علاقے کے بارے میں آپ نے کئی دہائیوں سے سنا ہوگا، لیکن یہ علاقہ دراصل کیا ہے، کہاں واقع ہے، اور اس کا رقبہ کتنا وسیع ہے؟ آئیے، ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔


برطانوی دور حکومت میں، دریاؤں کے بہاؤ کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف بند اور بیراج تعمیر کیے گئے۔ ان منصوبوں کے نتیجے میں دنیا کا بہترین نہری نظام وجود میں آیا۔ ان حفاظتی بندوں کے اندر ایک وسیع خطہ چھوڑا گیا، تاکہ بارشوں یا سیلاب کی صورت میں دریائی پانی کو آزادانہ طور پر بہنے کا موقع مل سکے۔ اس حفاظتی بند کے اندر آنے والے رقبے کو "کچے کا علاقہ" کہا جاتا ہے، جبکہ بند کے باہر موجود رقبہ "پکے کا علاقہ" کہلاتا ہے۔


جب دریاؤں میں پانی کی سطح بڑھتی ہے، تو یہ علاقے آہستہ آہستہ زیر آب آنا شروع ہوجاتے ہیں، اور بعض اوقات شدید سیلاب کے دوران پورا علاقہ پانی میں ڈوب جاتا ہے۔


یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا "کچے کا علاقہ" کوئی مخصوص جگہ ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہر دریا، چاہے وہ جہلم ہو، راوی، چناب یا سندھ، اس کے بند کے اندر کا علاقہ کچے کا علاقہ کہلاتا ہے۔ تاہم، سب سے بڑا اور مشہور کچے کا علاقہ دریائے سندھ کے دونوں اطراف واقع ہے، جہاں مختلف اہم واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ یہ علاقہ پاکستان کے تین صوبوں، پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے، جو تقریباً 400 کلومیٹر طویل ہے۔


کچے کے اس وسیع رقبے کی ملکیت محکمہ جنگلات اور ریونیو کے پاس ہے۔ پنجاب کے جنوبی حصوں جیسے رحیم یارخان، صادق آباد، اور راجن پور، اور سندھ کے شمالی علاقوں جیسے شکارپور، گھوٹکی، سکھر، اور کشمور کی زمینیں بھی اس علاقے کا حصہ ہیں۔


کچے کے علاقے میں مختلف قبائل آباد ہیں، جن میں شر، جاگرانی، جتوئی، تیغانی، بلوچ، چاچڑ، میرانی، اور سندرانی شامل ہیں۔ جب اس علاقے میں پانی نہیں ہوتا، تو یہ لوگ کھیتی باڑی اور مویشی پالنے جیسے پیشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ کچے کی زمینیں پاکستان کی سب سے زرخیز زمینوں میں شمار ہوتی ہیں، اور یہ علاقے زرعی پیداوار کے لحاظ سے بے حد اہم ہیں۔

حافظ محمد زبیر یعقوب

PTA Firewall, Reports of ATM Closure & Telecom Outage

"PTA Debunks Rumors of ATM and Telecom Disruptions"

Rumors of ATM Closure and Telecom Blackout Quashed by PTA

The Pakistan Telecommunication Authority (PTA) has refuted media reports suggesting that the country's ATMs and telecommunications may shut down due to the non-renewal of long-distance international (LDI) licenses. The licenses, set to expire in July-August 2024, enable international call services. Despite outstanding dues of Rs24 billion, the PTA has assured that there will be no disruption to ATM networks or telecommunications. 

A steering committee has been formed to address the issue. Earlier reports had warned of significant impacts on service quality, business operations, and the economy, including 50% of mobile traffic and 10% of internet traffic being affected. However, the PTA has clarified that operations of expired LDI licensees will not be suspended or shut down. This comes amid recent internet disruptions, which the Telecom Operators Association has attributed to a government-installed "firewall," and sought the prime minister's intervention to resolve.

Would you like more information? Kindly drop your suggestions and recommendations in comment section.

Hafiz Muhammad Zubair Yaqub

Source of News: Top Newspapers of Pakistan

Friday, August 23, 2024

Motorists to Get Relief as Petrol, Diesel Prices Fall Again





"Fuel Prices to Drop for Third Consecutive Fortnight"









Petrol and diesel prices in Pakistan are expected to drop by Rs5-6 per litre for the third consecutive fortnight, starting September 1. This decrease is attributed to lower international market prices and a stronger local currency. The international market prices of petrol and diesel have dropped by $2-2.30 per barrel, leading to a projected decrease in prices.

The current ex-depot prices of petrol and diesel are Rs260.96 and Rs266.07 per litre, respectively. The government reduced petrol and diesel prices by Rs8.47 and Rs6.70 per litre, respectively, in the last pricing review. This brings the total reduction in petrol and diesel prices to Rs14.64 and Rs17.56 per litre, respectively, over the last two fortnights.

The drop in petroleum prices will provide relief to consumers, especially the middle and lower middle classes, who are directly affected by petrol prices. However, it is unlikely that the drop in petroleum prices will be fully reflected in fares and prices of essential commodities. The government has increased the maximum limit of petroleum levy to Rs70 per litre, which will help collect Rs1.28 trillion in the next fiscal year. Currently, the government charges various taxes, including custom duty, sales tax, and petroleum levy, on petrol and diesel.


Hafiz Muhammad Zubair Yaqub

Prevention of Electronic Crime Act, 2016

 

Prevention of Electronic Crime Act, 2016

A Brief Detail of Act Deals With Cyber Crime In Pakistan


PECA stands for Prevention of Electronic Crimes Act, which was enacted in 2016 in Pakistan. The law aims to prevent and investigate electronic crimes, such as:


1. Cyber terrorism

2. Cyber stalking

3. Spamming

4. Hacking

5. Identity theft

6. Online harassment

7. Electronic fraud


PECA 2016 provides a legal framework for:


1. Investigating electronic crimes

2. Collecting digital evidence

3. Prosecuting offenders

4. Protecting victims' rights


The law also established the National Response Centre for Cyber Crimes (NR3C) to coordinate efforts against electronic crimes.


PECA 2016 has been instrumental in combating cybercrimes in Pakistan, but it has also faced criticism for its potential impact on freedom of expression and online privacy.


Would you like more information on PECA 2016 or its implications? Kindly drop your suggestion in comment section.

Hafiz Muhammad Zubair Yaqub

بلاک چین کیا ہے؟

  !بلاک چین کا مختصر تعارف بلاک چین ایک قسم کی ڈیجیٹل لیجر ٹیکنالوجی ہے جو لین دین کو محفوظ، غیر مرکزی اور شفاف طریقے سے ریکارڈ کرتی ہے۔ یہ ...