نانگا پربت
کوہ پیماؤں کا خواب
نانگا پربت، جسے "قاتل پہاڑ" کا لقب دیا گیا ہے، دنیا کے سب سے خطرناک اور بلند ترین پہاڑوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ پہاڑ پاکستان کے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں واقع ہے اور اس کی اونچائی 8126 میٹر (26660 فٹ) ہے۔ نانگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، چیلنجنگ راستوں، اور بے رحم موسمی حالات کی وجہ سے کوہ پیماؤں کے لیے ایک پرکشش لیکن خطرناک مقام ہے۔
نانگا پربت کا مطلب "ننگا پہاڑ" ہے، جو اس کے برف سے ڈھکے ہونے کے باوجود بے پناہ بلندی اور دشواری کی علامت ہے۔ اس پہاڑ کو سر کرنا دنیا کے چند مشکل ترین کارناموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اسے "قاتل پہاڑ" کہا جاتا ہے۔ نانگا پربت کی تاریخ میں کئی مہمات ناکام ہوئیں، جن میں بہت سے کوہ پیما اپنی جان گنوا بیٹھے۔ پہلی کوشش 1895 میں الفریڈ ممرے کی سربراہی میں کی گئی، لیکن یہ مہم ناکام ہوئی اور ممرے سمیت ان کے ساتھی کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1953 تک، تقریباً 31 کوہ پیما نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش میں جاں بحق ہو چکے تھے، جس کے بعد اس پہاڑ کو "قاتل پہاڑ" کہا جانے لگا۔
1953 میں، آسٹریا کے ہرمن بول وہ پہلے کوہ پیما بنے جنہوں نے نانگا پربت کو کامیابی سے سر کیا۔ یہ مہم بھی انتہائی مشکل ثابت ہوئی، اور ہرمن بول کو چوٹی پر پہنچنے کے بعد تنہا واپس آنا پڑا، کیونکہ ان کے ساتھی کوہ پیما برفانی راستے میں پیچھے رہ گئے تھے۔ ہرمن بول کی اس تاریخی کامیابی نے نانگا پربت کو ایک چیلنجنگ لیکن فتح پانے کے قابل پہاڑ ثابت کیا، مگر اس کے خطرات کم نہ ہوئے۔
پاکستانی کوہ پیما میجر محمد اقبال وہ پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے 1989 میں نانگا پربت کو سر کیا۔ ان کی یہ کامیابی پاکستان کی کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس کامیابی کے بعد پاکستانی کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک نیا حوصلہ پیدا ہوا، اور مزید کوہ پیما نانگا پربت کو فتح کرنے کی کوششیں کرنے لگے۔
علی سدپارہ، پاکستان کے سب سے معروف کوہ پیما، نانگا پربت کو سب سے زیادہ بار سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما ہیں۔ انہوں نے نانگا پربت کو چار بار کامیابی سے سر کیا، اور وہ دنیا کے چند کوہ پیماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے اس پہاڑ کو سردیوں میں بھی سر کیا ہے۔ 2016 میں، علی سدپارہ نے نانگا پربت کو سردیوں میں سر کرنے کا کارنامہ انجام دیا، جو ایک تاریخی کامیابی تھی۔ ان کی مہارت اور جرات نے انہیں دنیا بھر میں ایک منفرد مقام دیا۔
نانگا پربت کو سر کرنے کے لیے تین اہم راستے ہیں: راکیوٹ/کینچن روٹ، دیامیر فیس، اور روپال فیس۔ ہر ایک راستہ اپنی نوعیت میں منفرد اور خطرناک ہے۔
1. راکیوٹ/کینچن روٹ نانگا پربت کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور نسبتاً آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔ 1953 میں ہرمن بول نے اسی راستے سے پہاڑ کو پہلی بار سر کیا تھا۔
2. دیامیر فیس پہاڑ کی مغربی سمت میں واقع ہے اور یہ راستہ بھی کافی مشہور ہے۔ 1962 میں ایک جرمن-پاکستانی ٹیم نے اس راستے سے چوٹی کو سر کیا تھا۔
3. روپال فیس پہاڑ کی جنوبی سمت میں واقع ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا اور مشکل ترین پہاڑی چہرہ مانا جاتا ہے۔ 1970 میں مشہور کوہ پیما رین ہولڈ میسنر اور ان کے بھائی گونتر میسنر نے اس راستے سے چڑھائی کی تھی۔
روپال فیس کے ذریعے کی گئی مہم کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ رین ہولڈ میسنر اور ان کے بھائی گونتر میسنر چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب تو ہوئے، لیکن واپسی کے سفر میں گونتر میسنر کی طبیعت خراب ہو گئی۔ دونوں بھائیوں نے زیادہ محفوظ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، لیکن حالات انتہائی دشوار ہو چکے تھے۔ گونتر برفانی تودے کی زد میں آ کر لاپتہ ہو گئے اور ان کی موت واقع ہو گئی۔ گونتر کی لاش کئی سالوں تک نہیں ملی، اور یہ ایک بڑی معمہ بنی رہی۔ 2005 میں، ان کی باقیات نانگا پربت کے دیامیر فیس کے قریب پائی گئیں، جس نے ان کی موت کی تصدیق کی۔
رین ہولڈ میسنر نے اپنے بھائی کی موت کے بعد نانگا پربت کے حوالے سے کئی کتابیں لکھیں اور اس مہم کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ ان کا یہ واقعہ کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک اہم اور دلخراش مہمات میں شمار ہوتا ہے۔
نانگا پربت کو سر کرنا ہمیشہ سے کوہ پیماؤں کے لیے ایک خواب رہا ہے، مگر اس خواب کی تکمیل میں کئی جانیں قربان ہو چکی ہیں۔ یہ پہاڑ اپنی عظمت اور خطرات کے باعث ہمیشہ کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ آج بھی نانگا پربت کو سر کرنا دنیا کے مشکل ترین کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے، اور اس کی چوٹیاں کوہ پیماؤں کو اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں۔
حافظ محمد زبیر یعقوب
No comments:
Post a Comment