دودھ کی بڑھتی بے لگام قیمتیں اور موجودہ وفاقی و صوباٸی حکومتوں کے دعوے!
خدا ایسا دن کبھی نا لاۓ کہ لوگ تبدیلی چاہیں اور تبدیلی کے بدلے ان کے حالات اچھے ہونے کے بجاۓ بدترین ہو جاٸیں۔ یا راتوں رات ایسی گورنمنٹ تبدیل ہو کہ لوگوں کو اس تبدیلی کے بھی سنہرے خواب دکھاۓ جاٸیں اور پھر تعبیر ایک بدترین حقیقت ثابت ہو کہ جس سے پیچھا چھڑانا بھی نا ممکن سا ہوجاۓ۔ ابھی ذیادہ دیر نہی ہوٸی نٸی حکومت آۓ۔ ایک ایسا شخص تخت پربراجمان ہوا جسےکٸی برس خادم اعلٰی ہونے کا اعزاز حاصل رہا مگر جو نہی اس نے وذارت عظمٰی سمبھالی تو خادم اعلٰی ہونے کا سارا فخر جاتا رہا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بچے بھی حیرت سے کبھی اس خادم کی خدمت کو دیکھتے ہیں تو کبھی اپنی دودھ کی خالی بوتل کو۔ اپریل ٢٠٢٢ وہ ان چاہی گھڑی تھی جب موجودہ گورنمنٹ نے آہستہ سے تباہ ہوتی ریاست کو خود چلانے کا بیڑہ اٹھایا اور اس عمل کو تیزی کی ایسی راہ دیکھاٸی کہ الامان والحفیظ۔ ان چند ماہ مے دودھ کی قیمت میں تقریباً ٤٠ روپوں کا اور دہی کی قیمت میں تقریباً ٦٠ روپوں کا اضافہ ہو چکا ہےمگر بچے ہیں کہ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کے مصداق وفاق سے پنجاب تو کبھی پنجاب سے وفاق کی اوڑھ تک رہے ہیں مگر جواب کی بجاۓ ٹی وی پر دونوں کے اپنے کام کرنے اور دوسرے کے کام نا کرنے کے بیش قیمت اشتہارات دیکھ کر اس آس پر بھوک سے بلبلاتے سو جاتے ہیں کہ کبھی تو یہ اندھیری رات کی سیاہی کا خاتمہ ہوگا اور طلوع آفتاب اپنے ساتھ صبح نوید لے کر آن پہنچے گا۔ ابھی یہ ننھے ذہن جانتے نہی کہ یہ وطن عزیز پاکستان ہے اور یہاں تبدیلی کا مطلب تباہی تو ہو سکتا ہے مگر ترقی ہرگز نہیں۔ اللہ ان ننھے پھولوں کو ہی جلد سمجھ عطا فرماۓ کیونکہ اول اذکر لوگوں کو سمجھ آ جاۓ اس کا انتظار پچھلے ٧٥ برس سے کیا جا رہا ہے۔
بلاگر: حافظ محمد زبیر یعقوب
No comments:
Post a Comment